(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)
وقت—ایک ایسا سربستہ راز، جو ازل سے ابد تک پھیلا ہوا ہے۔ نہ اس کا کوئی آغاز یقینی ہے، نہ کوئی انجام متعین۔ یہ ایک ایسی لامحدود حقیقت ہے جسے ہر دور کے فلسفی، سائنس دان، اور مفکرین سمجھنے کی کوشش کرتے رہے، مگر وقت ہمیشہ ان کے ادراک سے آگے ہی رہا۔
ابتدائی تہذیبوں نے وقت کو سمجھنے کے لیے سورج، چاند، اور ستاروں کے تغیرات کا مشاہدہ کیا۔ مصر، بابل، اور یونان میں وقت کو دیوتاؤں کی مرضی کا تابع سمجھا جاتا تھا۔ ہندو فلسفہ وقت کو ایک دائروی چکر کے طور پر دیکھتا ہے—یعنی ہر عروج کے بعد زوال، اور ہر زوال کے بعد ایک نیا آغاز۔ یونانی فلسفے میں ہیراکلیطس نے کہا کہ “سب کچھ بہتا ہے”—یہی وقت کا جوہر ہے، جو رکنے کا نام نہیں لیتا۔
نیوٹن نے وقت کو ایک مطلق اور مستقل حقیقت قرار دیا، جو ہر شے پر یکساں طور پر لاگو ہوتا ہے۔ مگر آئن سٹائن کے نظریۂ اضافیت نے یہ تصور بدل دیا—وقت نہ مطلق ہے، نہ یکساں، بلکہ یہ کششِ ثقل اور رفتار کے تابع ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وقت کا بہاؤ ہر مشاہدہ کرنے والے کے لیے مختلف ہو سکتا ہے۔
وقت کی تاریخ محض فلکیاتی یا سائنسی تبدیلیوں کی داستان نہیں، بلکہ یہ انسانی شعور کے ارتقا کا آئینہ بھی ہے۔ ہر انسان کے لیے وقت کا تجربہ مختلف ہوتا ہے۔ خوشی کے لمحے پر لگا کر گزر جاتے ہیں، اور غم کے پل طویل ہو جاتے ہیں۔ گویا وقت محض ایک خارجی حقیقت نہیں، بلکہ ایک نفسیاتی تجربہ بھی ہے۔
وقت کو سمجھنے کی ہر کوشش کے باوجود، یہ آج بھی ایک معمہ ہے۔ کیا وقت حقیقت میں بہتا ہے، یا یہ محض ہماری فہم کا ایک فریب ہے؟ کیا وقت کا آغاز ہوا تھا، یا یہ ہمیشہ سے ہے؟ اور اگر وقت کی کوئی انتہا نہیں، تو کیا وہ لامحدود ہے؟
تاریخ کے ہر موڑ پر انسان نے وقت کو قید کرنے، ناپنے، اور قابو میں لانے کی کوشش کی، مگر وقت ہمیشہ رواں دواں رہا، کسی کے قابو میں نہ آیا۔ شاید وقت کی تاریخ درحقیقت خود انسان کی تاریخ ہے—ایک ایسی تلاش جو کبھی ختم نہیں ہوتی۔