(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)
تصوف ایک داخلی سفر کا نام ہے، ایک ایسا راستہ جو انسان کو اپنی حقیقت سے روشناس کراتا ہے اور اسے ذاتِ حق کی تلاش میں لے جاتا ہے۔ صوفی ازم دراصل روحانی پاکیزگی، اخلاقی برتری اور قلبی سکون کا وہ دروازہ ہے جہاں انسان اپنے نفس کی آلائشوں سے آزاد ہو کر حقیقتِ مطلقہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسا تجربہ ہے جو ظاہر سے باطن اور جسم سے روح تک کا احاطہ کرتا ہے۔
صوفی ازم کی بنیاد عشق پر رکھی گئی ہے، مگر یہ عام انسانی عشق سے ماوراء ہے۔ یہ وہ جذبہ ہے جو انسان کو اس کے خالق کی محبت میں فنا کردیتا ہے اور اس کی روح کو لطافت اور نورانیت سے معمور کرتا ہے۔ صوفی شعرا نے عشق کو ایک استعارہ بنایا، جہاں محب اور محبوب کے درمیان حجاب ہٹتے جاتے ہیں اور انسان اپنی حقیقت کی روشنی میں نہا جاتا ہے۔ رومی کہتے ہیں:
“عشق از ازل است و تا ابد خواهد ماند، عاشق ہر لحظہ از نو زاده میشود۔”
یعنی عشق ہمیشہ سے تھا اور ہمیشہ رہے گا، اور عاشق ہر لمحے نئی پیدائش پاتا ہے۔
تصوف کا ایک اہم تصور فنا فی اللہ اور بقا باللہ ہے۔ فنا فی اللہ کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنی ذات کی نفی کرکے اپنے آپ کو اللہ کی رضا میں مکمل طور پر ڈھال لے۔ جب یہ مرحلہ طے ہو جاتا ہے تو بقا باللہ نصیب ہوتی ہے، یعنی وہ مقام جہاں انسان اللہ کے قرب میں اپنی اصل حقیقت کو پالیتا ہے اور اس کے رنگ میں رنگ جاتا ہے۔
صوفی ازم میں دنیاوی محبت اور مادی علائق کو وہی درجہ حاصل ہے جو سفر میں کسی پڑاؤ کو ہوتا ہے۔ دنیا ایک سرائے ہے، جہاں انسان کچھ وقت کے لیے ٹھہرتا ہے، مگر اس کا اصل وطن کسی اور جہاں میں ہے۔ یہ وہ فلسفہ ہے جو مادی زندگی کے زوال کو حقیقت کی روشنی میں دیکھنے کا ہنر سکھاتا ہے۔
صوفی کی زبان میں کائنات ایک آئینہ ہے، جس میں حقیقت کا عکس جھلکتا ہے۔ صوفی اپنی آنکھ کو ان پردوں سے آزاد کرتا ہے جو حقیقت پر پڑے ہوئے ہیں اور یوں وہ اس کائنات کے ذرے ذرے میں تجلیاتِ الہٰیہ کو محسوس کرتا ہے۔ یہی وہ راز ہے جو صوفی کو ایک منفرد نگاہ عطا کرتا ہے۔
یہ سفر آسان نہیں، مگر جس نے ایک بار حقیقت کی روشنی کا ذائقہ چکھ لیا، وہ دنیا کے اندھیروں میں لوٹنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ یہ وہ دریا ہے جس میں اترنے والا اپنے ہونے کی حدوں سے نکل کر، بے خودی کے اس مقام پر پہنچتا ہے جہاں بس حقیقت ہی باقی رہ جاتی ہے۔
یہی تصوف کی معراج ہے، یہی صوفی ازم کی حقیقت ہے، اور یہی عشقِ حقیقی کی آخری منزل ہے۔