(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)
یہ محض ایک خیال نہیں، بلکہ ایک آئینہ ہے — جو ہمارے اندر کے اُس دریا کو دکھاتا ہے جس کی گہرائیاں ہمیں خود اپنی سطح سے بیگانہ کر دیتی ہیں۔
ہم ہمیشہ یہ سنتے آئے کہ جو نظر کے پردوں کے پیچھے ہے، وہی اصل ہے۔ کہ ہر سطح، ہر روشنی، ہر آواز — فریب ہے۔ ہم نے سکوت کو، گہرائی کو، خلوت کو، تہہ کو — نجات کا نام دیا۔
لیکن آج، ایک خیال کی مانند، ایک روشنی کی کرن آ کر ذہن کے اندھیروں میں یوں پڑی کہ جیسے خود قلزم بھی کانپ گیا ہو…
اگر دریا کی تہہ میں کوئی گوہر چھپا ہے، تو وہ کب جان پاتا ہے اُن موجوں کا ذائقہ، جو سطح پر سورج سے لپٹتی ہیں؟
کیا اسے خبر ہے کہ ہوا کے نغمے کیسے لہروں میں ارتعاش پیدا کرتے ہیں؟
کہ سطح کے اوپر بھی کوئی عالم ہے —
نرم، لطیف، اور شاید… مکمل؟
عارف ہمیشہ باطن کی گہرائی میں کھوجتا ہے،
لیکن کبھی کبھار…
وہ اپنی آنکھیں بند کر کے گہرائی میں اس قدر ڈوب جاتا ہے
کہ وہ سطح پر بکھری ہوئی روشنیوں کی صداقت سے بے خبر ہو جاتا ہے۔
یہ تحریر اُن کے نام —
جو گمان رکھتے ہیں کہ ہر راز تہہ میں دفن ہے۔
جو بھول گئے کہ بعض اوقات،
حقیقت آنکھوں کے عین سامنے، سطحِ آب پر رقص کرتی ہے —
مگر ہم اُس پر ایمان نہیں لاتے،
کیونکہ ہمیں تربیت دی گئی ہے گہرائی پر یقین کی۔
ہم نے سکون کو سکوت میں تلاش کیا،
لیکن شاید زندگی شور میں سانس لیتی ہے۔
کیا یہ ممکن نہیں کہ جو “تہہ” میں ہے،
وہ خود بھی قید میں ہو؟
اور “سطح” — وہ آزادی ہو،
جسے ہم نے فقط ہلکا کہہ کر ٹھکرا دیا؟
نہ گہرائی جھوٹ ہے،
نہ سطح فریب —
اصل فریب تو وہ نظر ہے
جو دونوں کو جدا دیکھتی ہے۔
تصوف ہو یا فلسفہ،
شعر ہو یا خامشی،
جب تک تہہ اور سطح کو ایک ندی کے دو کنارے نہ جانا جائے،
ہم صرف آدھی حقیقت کے پجاری رہیں گے۔
تو اے قلزم کے تہہ نشین!
کبھی ایک سانس سطح کی طرف بھی لو —
شاید وہی سانس
زندگی کی مکمل تعبیر ہو۔