کتبے کی ضرورت کیوں؟

(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)

کبھی کبھی انسان سوچتا ہے کہ جب مٹی مٹی میں جا ملے گی، اور سانس کی ڈور ٹوٹ کر وقت کی گمنامی میں ڈوب جائے گی — تو اس کے بعد کون باقی بچے گا؟ نام؟ پہچان؟ یا بس چند مٹتی مٹتی یادیں؟
اور پھر دل کہتا ہے، کہ جسے میری قبر پہ آ کر، کتبے کی تختی پڑھ کر یاد آنا ہے — وہ آنے ہی کیوں دے اپنے پاؤں اس مٹی پہ؟
جو دل کی زمین میں جگہ نہ بنا سکا، وہ پتھر کی تختی پر کیا تلاش کرے گا؟

کیونکہ قبریں پہچان کی محتاج نہیں ہوتیں۔ وہ پہچان تو آنکھ بند کرنے کے بعد بھی سانس لیتی رہتی ہے، اُن لوگوں کی دعا میں، اُن کی یاد کی نمی میں، اور اُن لمحوں میں جب بے اختیار کوئی نام لبوں پر آ جائے۔
اور اگر وہ بھی نہ ہو، تو پھر کیا فرق؟
مٹی کو مٹی میں مٹنا ہی تھا۔ نشان وہی رہتے ہیں جو دل پہ ثبت ہوتے ہیں۔ باقی سب تو وقت کے دھندلکے میں گم ہو جایا کرتے ہیں۔

مجھے اپنی قبر پہ ایسا کوئی کتبہ نہیں چاہیے، جو آنے والے کو بتائے کہ یہاں کون سو رہا ہے۔
اگر تمہاری آنکھ کبھی میری بات، میری دعا، میرے لمس، یا میری خوشبو سے آشنا رہی ہے — تو مٹی کے ذروں سے پہچان لینا۔
اور اگر نہ رہی — تو رہنے دینا۔
ہر مٹی اپنی پہچان آپ رکھتی ہے۔
نام تختیوں پہ ہوں یا نہ ہوں، دل کی کتاب میں محفوظ رہیں تو کہانی مکمل ہے۔
اور اگر وہاں بھی نہ ہو — تو شاید اس کہانی کا ہونا بھی کوئی معنی نہیں رکھتا۔

اپنی رائے سے آگاہ کریں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top