ویران چوکھٹ، بے صدا دروازے

(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)

کبھی وہ دروازے تیرے قدموں کی چاپ کے منتظر تھے۔ دیواروں پر امید کے چراغ روشن تھے اور ہوا تیرے نام کی سرگوشیاں کرتی تھی۔ وقت گزرتا رہا، موسم بدلتے رہے، اور ہر لمحہ تیری دستک کی خواہش میں گزرا۔ وہ چوکھٹ جس پر کبھی تیری آہٹ کا گماں ہوتا تھا، اب ویرانی کا بستر بن چکی ہے۔

انتظار کی وہ گھڑیاں جو کبھی دل کو دھڑکن دیتی تھیں، اب تپتے صحرا کی پیاسی ریت کی مانند جلنے لگی ہیں۔ اور اب تو یہ عالم ہے کہ دیمک بھی کھا کر چھوڑ گئی ہے ان دروازوں کو، جن پر برسوں تیری آمد کی آس لگی تھی۔ نہ دروازے باقی رہے، نہ امید کا چراغ، نہ وہ لمحے جن میں تیرا تصور آباد تھا۔

بسا اوقات زندگی کرب کی ایسی وادی میں لے آتی ہے جہاں نہ کوئی صدا سنائی دیتی ہے، نہ کوئی دستک، اور باقی رہ جاتی ہے صرف یادوں کی راکھ، جس میں جل جل کر انسان خود بھی خاک ہو جاتا ہے۔

اپنی رائے سے آگاہ کریں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top