(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)
محبت کبھی سود و زیاں کا کھیل نہیں ہوتی۔ یہ جذبہ ہے جو کبھی شرطوں میں پروان نہیں چڑھتا، نہ ہی جیت اور ہار کی مسافت جانتا ہے۔ یہاں تو اپنی خواہشوں کا گلا گھونٹ کر، محبوب کی خوشی کی راہ میں پلکیں بچھا دی جاتی ہیں۔
کبھی کبھی دل چاہتا ہے کہ یا تو کوئی ہمیں مکمل کر دے، ہماری ادھوری دعاؤں کو لبیک کہہ دے، یا پھر اتنے یقین کے ساتھ انکار دے کہ انتظار کی وہ اذیت دم توڑ دے۔ محبت میں ادھورا پن، شاید سب سے زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے۔ وہ وقفے، وہ بے یقینی، وہ پل پل بدلتی امید اور ناامیدی کی کیفیت… جیسے ایک بچھڑتے خواب کو پلکوں سے تھامنے کی آخری کوشش۔
اور پھر کبھی ایسا لمحہ آتا ہے کہ دل کہتا ہے،
’’تُو خوش رہ… یہی میرے لیے کافی ہے۔ چاہے تیری خوشی میں میری ہار ہی کیوں نہ چھپی ہو۔‘‘
یہ ہار بھی کسی جیت سے کم نہیں لگتی، کیونکہ اس میں اپنی ذات کی نفی کر کے، محبوب کی مسکراہٹ کو دعا کی شکل دی جاتی ہے۔ اپنی شکست کو ایسا وقار عطا کیا جاتا ہے، جو کسی فاتح کے مقدر میں بھی نہیں ہوتا۔
محبت اگر سچی ہو تو اپنی ہار کی آنچ میں بھی محبوب کے سکون کا چراغ جلا لیا جاتا ہے۔ یہی اصل جیت ہے… وہ جیت جو دنیا دیکھ نہیں پاتی، مگر دل کے کونے میں ہمیشہ جگمگاتی رہتی ہے۔