(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)
ہماری تاریخ کا ایک المیہ یہ بھی رہا ہے کہ جب بھی کسی قوم میں علم، تحقیق اور شعور کی روشنی کمزور پڑتی ہے، تو وہاں جعلی روحانیت، جھوٹے کرامت فروش، اور نام نہاد صوفی مزاج بابے ابھرنے لگتے ہیں۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہماری اردو ادب کی کئی معروف شخصیات بھی اس رجحان کو دانستہ یا نادانستہ فروغ دیتی رہیں۔
قدرت اللہ شہاب کی “شہاب نامہ” میں “بابا جی” کے نام سے ایک غیر مرئی، پراسرار شخصیت کا ذکر کیا گیا ہے جو مصنف کی زندگی کے فیصلے کرتا ہے، خواب میں آتا ہے، رہنمائی کرتا ہے، اور اشاروں میں قدرتی معاملات کی تقدیر بدلتا دکھایا گیا ہے۔ اس کردار نے ہزاروں قارئین کے اذہان میں یہ تصور بٹھایا کہ کسی گمنام، غیر مرئی ہستی سے تعلق قائم کیے بغیر زندگی سنور نہیں سکتی۔
اشفاق احمد کی “زاویہ” میں بھی ‘بابا صاحبان’ کے قصے، کرامتوں کے تذکرے اور ماورائی داستانیں اس انداز میں بیان کی گئیں کہ عام قاری حقیقت اور فسانے میں فرق کرنا بھول گیا۔ علم و عقل کی بات کرنے والے لوگوں کو ‘فکری مغرور’ اور ‘دل کے اندھے’ قرار دے کر تصوف کو صرف کرامتوں، وجد اور مافوق الفطرت مظاہر تک محدود کر دیا گیا۔
ممتاز مفتی نے اپنی آپ بیتی “علی پور کا ایلی” میں زندگی کے مختلف ادوار بیان کیے، مگر بعد ازاں اپنی تصانیف میں بھی ایسے کرداروں اور روحانی شخصیات کا ذکر کیا، جو بظاہر مذہبی روایت سے ہٹ کر، مگر عوامی نفسیات پر گہرا اثر ڈالنے والی تھیں۔ مفتی صاحب کا تصوف ایک ایسی دنیا کا نقشہ کھینچتا ہے، جہاں عقل ثانوی اور کشف و کرامت اصل پیمانہ بن جاتے ہیں۔
مثال کے طور پر:
شہاب نامہ میں بابا جی کا خواب میں آ کر سرکاری فیصلوں پر اثر انداز ہونا۔
زاویہ میں اشفاق احمد کا سوال نہ کرنے کا مشورہ دینا اور بابے کی بے دلیل بات کو حتمی سچ ماننے کی تلقین۔
ممتاز مفتی کا “بابا یحییٰ” اور “سائیں” جیسے کرداروں کے ذریعے ایسی دنیا تشکیل دینا، جہاں عقل و استدلال کو ‘ایگو’ اور ‘مادیت’ کہہ کر رد کر دیا جاتا ہے۔
یہ تمام تحریریں بظاہر روحانیت، محبت اور انسان دوستی کا پیغام دیتی نظر آتی ہیں، مگر درحقیقت انہوں نے نئی نسل کے اذہان میں سوال کرنے کی صلاحیت سلب کی، حقیقت کی تلاش کے بجائے بابوں اور کشف پر بھروسا سکھایا۔
آج کا نوجوان اگر ان تحریروں کو بغیر تنقیدی مطالعہ کے پڑھے گا تو وہ بھی مزار پر جا کر دھاگے باندھنے، تعویذ لینے اور خوابوں میں اشارے ڈھونڈنے والی نسل کا حصہ بن جائے گا۔ یہ وہی فکری غلامی ہے جس نے قوموں کو زوال کی پستی میں دھکیل دیا۔
اصل تصوف تو علم، عمل، خود شناسی اور حق شناسی کا نام ہے۔ جو سوال کرنے، حقیقت کی تلاش اور نفس کی پاکیزگی کا پیغام دیتا ہے ، نہ کہ کرامت فروشی اور فکری غلامی کا۔
نئی نسل سے گزارش:
اے مسقبل کے معمارو! زاویہ، شہاب نامہ اور علی پور کا ایلی ضرور پڑھو، مگر تنقیدی نگاہ سے۔ سوال کرو، دلیل مانگو، اور علم و فہم کے چراغ جلا کر اپنی راہ متعین کرو۔ مزاروں اور بابوں کی کرامتوں کے قصے سن کر نہ جیو، بلکہ قرآن، سیرتِ رسولؐ اور حقیقی تصوف کی روشنی میں اپنی منزل تلاش کرو۔
جاہلوں کے ہاتھوں اپنی سوچ کی باگ ڈور نہ دو، اور وہ علم اپناؤ جو تمہیں دنیا و آخرت میں سرخرو کرے۔