(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)
کائنات میں کچھ وجود ایسے ہوتے ہیں، جنہیں وقت کی دستاویز میں کوئی عنوان نہیں دیا جاتا۔ ان کے شب و روز کی کہانیاں نہ کسی کتاب کی زینت بنتی ہیں، نہ کسی سنگِ مزار پر کندہ ہوتی ہیں۔ وہ موسم کی طرح آتے ہیں، ہر شے کو زندگی بخشتے ہیں، اور پھر بنا کوئی صدا دیے، چپ چاپ گزر جاتے ہیں۔
ایسے وجود صبر کے اس دریا کی مانند ہوتے ہیں، جس کا کنارہ کبھی دکھائی نہیں دیتا۔ وہ اپنی ہستی کی نرم مٹی سے دوسروں کے لیے خوابوں کی عمارتیں تعمیر کرتے رہتے ہیں، اور جب وہ عمارتیں آسمان چھونے لگتی ہیں، تب بھی ان کا وجود اس مٹی میں گم رہتا ہے۔
ان کے جذبے روشنی کی اس لکیر کی مانند ہوتے ہیں، جو اندھیرے کی چادر میں چھپی رہتی ہے، مگر اس کے دم سے رات، رات رہتی ہے اور دن، دن۔ وہ صدیوں کے شور میں اپنی خاموشی کے ساتھ گزر جاتے ہیں، مگر ان کی گونج وقت کی گہرائی میں دفن ہو کر بھی مٹی کو زرخیز رکھتی ہے۔
یہ وہ ہستیاں ہیں، جو اپنی خواہشوں کو خاک کر کے دوسروں کے نصیب کی بارش کا بندوبست کرتی ہیں۔ اپنے آنسوؤں کو چھپا کر دوسروں کی مسکراہٹ کا بندھن باندھتی ہیں۔ یہ ایسے چراغ ہیں، جو خود جل کر، اپنے اردگرد کے اندھیروں کو مٹاتے رہتے ہیں، اور ان کی لو کبھی کسی نے غور سے نہیں دیکھی۔
ان کی کہانی، وقت کے اوراق پر بےنام تحریروں کی صورت درج رہتی ہے۔ وہ اپنے دل کی زمین پر خزاں کی بارش سہہ کر، دوسروں کے لیے بہار کا موسم پیدا کرتی ہیں۔ اپنی تھکن کا بوجھ وقت کے کندھوں پر ڈالے بغیر، چپ چاپ چلتی رہتی ہیں۔
وہ محبت کی اس خوشبو کی مانند ہیں، جو محسوس تو کی جاتی ہے، مگر پکڑی نہیں جا سکتی۔ ان کے ایثار کی ہوا درختوں کے پتے ہلاتی ہے، مگر کوئی ان کی موجودگی کا نام نہیں لیتا۔
اور شاید یہی ان کا کمال ہے کہ وہ کبھی شکایت نہیں کرتیں۔ وہ اپنی ذات کے زندان میں صبر اور وفا کا چراغ جلائے بیٹھی رہتی ہیں۔
ان کے حصے میں نہ داد آتی ہے، نہ سلام، نہ ستائش۔ مگر کائنات کی ساری رونق، سارا سکون، ساری بہار انہی کے جلے وجود کی خاک سے جنم لیتی ہے۔
وہ وقت کے سفر میں خاموشی سے اپنے قدم رکھتی ہیں، اور ہر قدم پر اپنی ذات کا ایک حصہ مٹا دیتی ہیں۔ یہاں تک کہ وہ خود مٹی ہو جاتی ہیں — اور مٹی کبھی شکوہ نہیں کرتی۔
یہ وہ بےنام موسم ہیں، جن کی خوشبو رہتی ہے، مگر جن کے آنے اور جانے کی خبر کوئی نہیں رکھتا۔
وہ ایک فلسفہ ہیں — کہ اصل محبت، اصل وفا اور اصل ایثار وہی ہوتا ہے جو سراہے بغیر نبھایا جائے، جو صلے کی امید کے بغیر پیش کیا جائے، جو دنیا کی نگاہوں سے اوجھل، مگر کائنات کی دھڑکن میں شامل ہو۔
ایسی ہستیاں ہی اصل میں حیات کی مٹی کا نمک ہیں… جو نہ ہوں، تو یہ زندگی بےذائقہ ہو جائے۔