جستجوِ چراغِ طلسم

(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)

رات کی تاریکی میں بھٹکتے مسافر کی نگاہیں ہمیشہ ایک چراغ کی متلاشی رہتی ہیں—ایسا چراغ جو صرف راستہ نہ دکھائے، بلکہ حقیقت کی وادیوں تک پہنچا دے۔ یہ کوئی عام چراغ نہیں، بلکہ وہ طلسمی چراغ ہے جس کا نور جہالت کی گھٹن میں روشنی، حیرت کی راہ میں ہدایت، اور تلاش کی صحراؤں میں ایک چشمۂ معرفت ہے۔

یہ چراغ کسی بازار میں نہیں بکتا، کسی سوداگر کے پاس نہیں ملتا، کسی دستکار کے ہنر سے نہیں بنتا۔ یہ چراغ وہی لوگ پا سکتے ہیں جو اپنی ذات کے اندھیروں سے نبرد آزما ہونے کی ہمت رکھتے ہیں، جو مٹی کے بتوں کو توڑنے کا حوصلہ رکھتے ہیں، جو اپنا آپ مٹی میں ملا کر خاکساری کی حدوں میں اترنے کی جرأت رکھتے ہیں۔

یہ چراغ وہی ہے جو موسیٰ کو وادیٔ سینا میں نظر آیا، جو ابراہیم کے قلب میں صدیوں سے روشن تھا، جو منصور کے “انا الحق” میں صدا بن کر گونجا، جو رومی کے درویشانہ رقص میں محو ہو گیا۔
یہ چراغ دل کے نہاں خانوں میں چھپی روشنی ہے، مگر اسے پانے کے لیے پہلے اپنے باطن کے دریچوں کو وا کرنا پڑتا ہے۔ یہ وہ چراغ ہے جس کی روشنی میں انسان اپنی حقیقت کو دیکھ سکتا ہے، اپنی اصل کو پا سکتا ہے، اپنے وجود کے بھید کھول سکتا ہے۔

مگر یہ چراغ کسی راہگزر پر نہیں جلتا، نہ ہی یہ کسی معمولی ہَوا کے جھونکے سے بجھ سکتا ہے۔ یہ چراغ صرف انہی قلوب میں جلتا ہے جو تسلیم و رضا کے آستانے پر سر جھکا دیتے ہیں، جو دنیا کے فریب سے آنکھیں موند کر حقیقت کے نظارے میں محو ہو جاتے ہیں، جو اپنی جستجو کو اپنے نفس کی حدود سے نکال کر ازلی حقیقت کے نور میں گم کر دیتے ہیں۔

جو اس چراغ کو پا لیتا ہے، وہ خود بھی ایک چراغ بن جاتا ہے۔ اس کی روشنی میں صدیوں کے اندھیرے مٹ جاتے ہیں، اس کے وجود سے عالمِ جاں میں روشنی کی لہریں دوڑ جاتی ہیں۔ وہ خودی کی سرحدوں سے نکل کر معرفت کی وسعتوں میں اتر جاتا ہے، اور پھر اُس کا وجود محض ایک جسم نہیں رہتا، بلکہ وہ نور کا ایک استعارہ بن جاتا ہے۔

یہی وہ چراغ ہے جسے پانے کی تمنا سالک کی راہ کو روشن کر دیتی ہے، یہی وہ نور ہے جس سے اپنا سراغ مل جاتا ہے۔ مگر شرط یہ ہے کہ پہلے خود کو مٹی میں دفن کرنا ہوگا، تاکہ حقیقت کے سورج کی کرنیں باطن کی زمین کو زرخیز کر سکیں۔

کیا تُو بھی اس چراغ کی جستجو میں ہے؟ اگر ہاں، تو پھر راہِ فقر اختیار کر، اپنا آپ مٹا، اور اس نور کی طلب میں اس در پر جا کھڑا ہو جہاں “صبغتہ اللّٰہ” کا رنگ ہر شے پر غالب آ جاتا ہے۔ پھر دیکھ، تیرا ظاہری وجود خواہ خاک میں مل جائے، مگر تیرا باطن ایسا روشن ہو جائے گا کہ صدیوں تک چراغاں رہے گا۔

اپنی رائے سے آگاہ کریں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top