خاموشیوں کا مکالمہ

(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)

وہ باتیں جو زندگی نے کبھی کہی نہیں

زندگی ہمیشہ الفاظ میں نہیں بولتی۔ اس کی اصل گفتگو اکثر ان لمحوں میں پوشیدہ ہوتی ہے، جہاں زبان گونگی ہو جاتی ہے اور احساس چیخ اٹھتے ہیں۔ خاموشی محض غیرموجودیِ آواز نہیں، بلکہ وہ زبان ہے جو وقت کے سینے میں دفن سچائیوں کو چپکے سے سناتی ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ بات وہی ہوتی ہے جو ادا ہو جائے، مگر زندگی کی سب سے عمیق صدائیں ان سنّاٹوں میں گونجتی ہیں جہاں انسان تنہائی میں اپنے آپ سے مخاطب ہوتا ہے۔ ان لمحوں میں، جب ہجوم کے بیچ دل اکیلا ہو جائے، ایک انجانی خلش اندر سرگوشی کرتی ہے — اور یہی وہ مکالمہ ہے جو زندگی برسوں سے ہم سے کرنا چاہتی ہے مگر ہم شور میں سنتے ہی نہیں۔
کبھی کبھی ماں کی خاموش نظریں، باپ کی رکی ہوئی سانس، دوست کا بنا کچھ کہے چلے جانا، یا خود اپنی نیند سے جاگتی آنکھیں، ایسے جملے کہہ جاتی ہیں جنہیں لغت بھی بیان نہیں کر سکتی۔ ان لمحوں میں زندگی گویا آئینہ بن کر ہمارے سامنے کھڑی ہو جاتی ہے، اور ہم اس کی آنکھوں میں وہ سوال پڑھتے ہیں جو اس نے کبھی زبان پر نہ لائے۔
خاموشیوں کے یہ مکالمے وقت سے ماورا ہوتے ہیں۔ یہ ماضی کے کرب کو حال کی آنکھ میں دکھا دیتے ہیں اور مستقبل کے خدشات کو ایک آہ کی صورت حال پر ڈال دیتے ہیں۔ ان میں کوئی دعویٰ نہیں، کوئی دلیل نہیں، صرف سچائی کی ایک گونگی تجلی ہوتی ہے — بےآواز، مگر پراثر۔
زندگی کے وہ لمحات جن میں ہم کچھ کہنا چاہتے ہیں مگر کہہ نہیں پاتے — وہی اصل زندگی ہے۔ زبان سے کہی باتیں تو وقت کی گرد میں دب جاتی ہیں، مگر جو نہ کہی گئی، وہی ہماری اصل پہچان بن جاتی ہے۔
یہی خاموشیوں کا مکالمہ ہے — زندگی کی سب سے صادق اور گہری گفتگو۔

اپنی رائے سے آگاہ کریں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top