(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)
زندگی میں کچھ چہرے ہمیشہ قریب ہوتے ہیں — ایک کمرے میں، ایک خاندان میں، ایک زندگی میں۔ مگر عجیب بات یہ ہے کہ انہی میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ہر لمحے موجود ہو کر بھی… گویا ہوتے ہی نہیں۔
یہی ہے احساسِ ناموجودگی — وہ کیفیت جہاں جسم پاس ہو، آواز سنائی دے، لیکن وجود کی روشنی کہیں نہ ہو۔
یہ وہ دکھ ہے جس کا ماتم نہ کیا جا سکتا ہے،
کیونکہ مرنے والا مرا نہیں ہوتا —
بس کہیں کھو گیا ہوتا ہے،
کسی اور خیال، کسی اور دنیا، کسی اور خاموشی میں۔
ایسا شخص ہر تصویر میں نظر آتا ہے،
مگر یاد میں نہیں اترتا۔
اس کے جملے ہوتے ہیں،
مگر بات نہیں ہوتی۔
اس کا لمس ہوتا ہے،
مگر قربت نہیں۔
ایسا رشتہ ایک خلا بن جاتا ہے،
جسے جتنا بھرنا چاہو، اتنا ہی خالی لگتا ہے۔
بعض اوقات یہ احساس محبت کے بعد پیدا ہوتا ہے —
جب چاہت کا رنگ ماند پڑ جائے،
جب گفتگو رسمی ہو جائے،
جب نظریں ملیں مگر نگاہ نہ ٹھہرے۔
اور بعض اوقات یہ احساس اس وقت پیدا ہوتا ہے
جب کوئی شخص اپنے اندر ہی اتنا ڈوب جائے
کہ دوسروں کے لیے سطح پر آنے کی سکت ہی نہ رہے۔
یہ احساس جسمانی جدائی سے زیادہ تلخ ہوتا ہے —
کیونکہ یہاں چلے جانے والا گیا نہیں ہوتا،
اور رکنے والا رک نہیں پاتا۔
یہ ایک مسلسل صدمہ ہے،
ایک زندہ ماتم،
جو دل میں اتر کر خاموشی کو چیخ بنا دیتا ہے۔
یہی احساسِ ناموجودگی ہے —
وہ سایہ جو روشنی کے ساتھ چلتا ہے،
مگر خود کبھی روشنی نہیں بنتا۔