(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)
کبھی کبھی حقیقت، خوابوں کا جنازہ اٹھا کر چلتی ہے —
ایسا جنازہ جس کے کاندھے خود حقیقت نے دئیے ہوں،
اور جس کا کفن خوابوں کی ریشمی امیدوں سے بُنا گیا ہو۔
یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جہاں جاگتی آنکھیں نیند کے اندر نہیں،
خود اپنے اندر ڈوب جاتی ہیں۔
جاگتی آنکھ… وہ آئینہ ہے جس میں زندگی اپنے چہرے کو بغیر نقاب دیکھتی ہے —وہ چہرہ جس پر خواہش کی سلوٹیں،
ادھورے لمس کی نمی،
اور امید کی گرد جمی ہوتی ہے۔
یہی آنکھ جب سو نہیں پاتی،
تو خواب جاگ اٹھتے ہیں —
مگر خواب، جو آنکھوں سے نہیں دل سے دیکھے جائیں،
جب دل ہی بیدار نہ ہو،
تو وہ خواب محض حقیقت کی بے لباسی بن جاتے ہیں۔
حقیقتیں اکثر نیند سے خائف رہتی ہیں —
کیونکہ نیند میں وہ منظر بنتے ہیں
جو دن کی روشنی چھین نہیں سکتی۔
اسی لیے کچھ سچ، صرف نیند میں روتے ہیں،
اور کچھ خواب، صرف جاگتے ہوئے مرتے ہیں۔
یہ جاگتی آنکھیں…
صبحوں کی امید نہیں،
کبھی کبھی شام کے سائے ہوا کرتی ہیں —
ایسے سائے، جو دن کی روشنی کو شک میں ڈال دیں،
اور رات کی تاریکی کو آئینہ دکھا دیں۔
خواب اگر زندگی کا وجدان ہیں،
تو حقیقت اس کا انکار۔
وجدان، جو ممکنات کا در وا کرتا ہے —
اور انکار، جو محض موجودگی کا ماتم ہوتا ہے۔
ایسے میں خوابوں کے کفن میں لپٹی حقیقتیں
ہمیں وہ سچ بتاتی ہیں
جو کتابوں میں نہیں،
نہ ہی دستاویزات میں —
بلکہ انسان کی خاموش شکست میں محفوظ ہوتے ہیں۔
یہ حقیقتیں کبھی ایک مسکراہٹ میں چھپ جاتی ہیں،
کبھی ایک خالی کرسی پر بیٹھ جاتی ہیں،
اور کبھی پرانی یادوں کے صندوق میں
اپنا آخری خط لکھ کر سو جاتی ہیں۔
آخرش…
یہ جاگتی آنکھیں جو نیند سے محروم ہیں،
درحقیقت وہ آنکھیں ہیں جو زندگی کو خواب کی مانند
اور خواب کو موت کی مانند دیکھتی ہیں