خامشی کے سایے

(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)

خامشی صرف بولنے سے پہلے کا وقفہ نہیں،
یہ وہ آواز ہے
جو سننے والوں کے نصیب میں کم ہی لکھی جاتی ہے۔
یہ وہ صدا ہے جو کسی زبان کی محتاج نہیں،
کسی حرف، کسی صوت، کسی آواز کی قید میں نہیں آتی —
خامشی ایک عالم ہے،
ایک جہان…
جہاں صرف وہی داخل ہو سکتا ہے
جس نے خود کو آوازوں کے ہجوم سے چھان لیا ہو۔
انسان ہر روز ہزاروں لفظ بولتا ہے،
لیکن کبھی کبھار،
ایک لمحۂ خامشی وہ سچ بول جاتا ہے
جسے تمام عمر کے جملے نہ کہہ سکے۔
خامشی کا سایہ
تب اترتا ہے جب دل اپنے سچ کو چھپانے سے تھک جاتا ہے،
اور آنکھیں لفظوں سے آگے دیکھنے لگتی ہیں۔
یہ سایہ وہ پردہ ہے
جس کے پیچھے انسان اپنے سب سے گہرے زخم چھپاتا ہے،
اور اپنے سب سے سچے جذبات دفن کرتا ہے۔
خامشی چیختی نہیں،
مگر وہ زخم دے جاتی ہے
جن کا شور وقت کے کان بھی سننے سے قاصر ہوتے ہیں۔
یہ وہ چراغ ہے جو اندھیرے میں نہیں جلتا،
بلکہ روشنی کے بیچ خاموش رہ کر
اپنا وجود منواتا ہے۔
جب لفظ ناکام ہو جائیں،
اور زبان سپردگی کا اعلان کر دے،
تب دل خامشی کو بطور سفیر چنتا ہے۔
اور یہی وہ وقت ہوتا ہے
جب سچائی خود بولنے لگتی ہے
— بغیر زبان، بغیر صدا، بغیر ادا۔
خامشی کی گہرائیاں
ان سمندروں سے بھی زیادہ بے کنار ہوتی ہیں
جن میں کئی جہاز غرق ہو چکے،
اور جن کے ساحل خوابوں سے بھی زیادہ دور ہیں۔
خامشی کا ایک پل
روح کو ایسا آئینہ دکھا سکتا ہے
جہاں نہ چہرہ ہوتا ہے، نہ نقاب — بس حقیقت کی برہنگی،
جو ہر انسان کے اندر کہیں دفن ہے۔
یہ خامشی کبھی دعا کی صورت اترتی ہے،
کبھی شکوے کی،
اور کبھی … محض قبولیت کی۔
یہ تسلیم کی وہ صدا ہے
جسے سننے کے لیے
سارا وجود کان بن جاتا ہے۔
اور کبھی کبھی —
خامشی، خدا کی زبان بن جاتی ہے۔
وہ زبان جس میں رحم ہے، راز ہے،
اور قربت کا ایسا لمس
جو کسی اور وسیلے سے ممکن نہیں۔

اپنی رائے سے آگاہ کریں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top