آسمانی ہجرتیں

(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)

ہر انسان اپنی ذات میں ایک سیارہ ہے،
جو اپنی کشش، اپنے مدار، اپنی کہکشاں لیے
وقت کی لامحدود فضا میں رواں دواں ہے۔
مگر کچھ لمحے، کچھ احوال، کچھ وارداتیں
ایسی ہوتی ہیں جو ہمیں
زمینی دنیا سے کاٹ کر
کسی اور آسمان کی طرف ہجرت پر مجبور کر دیتی ہیں۔
یہ ہجرت جسم کی نہیں ہوتی —
یہ روح کے پر پھیلنے کا وہ لمحہ ہوتا ہے
جب انسان اندر سے خالی ہو کر
کسی ماورائی سکون کی طرف پرواز کرتا ہے۔
آسمانی ہجرت
اس وقت وقوع پذیر ہوتی ہے
جب انسان کسی دکھ، کسی خواب، کسی سوال کے بوجھ تلے
اپنی ذات کے ملبے میں دفن ہو رہا ہوتا ہے،
اور یکایک —
ایک روشنی کی لکیر اس کے اندر جگمگا اٹھتی ہے،
جو اسے “یہاں” سے “کہیں اور” لے جاتی ہے —
ایسے “اور” کی جانب
جو لفظوں میں کبھی قید نہیں کیا جا سکا۔
یہ سفر نہ وقت کا پابند ہوتا ہے،
نہ فاصلوں کا محتاج۔
یہ کبھی ایک آنسو سے شروع ہو سکتا ہے،
اور کبھی ایک مسکراہٹ سے —
بس شرط اتنی ہے کہ دل بیدار ہو،
اور روح سننے کو تیار۔
ایسی ہجرتیں
کبھی یاد کے ذروں میں چھپی ہوتی ہیں،
کبھی تنہائی کے خاموش دریچوں میں،
اور کبھی …
اک چھوٹے سے لمحے میں
جو صدیوں پر بھاری پڑ جاتا ہے۔
یہ آسمانی ہجرت وہی محسوس کر سکتا ہے
جس نے زندگی کو محض جینا نہیں،
بلکہ برتنا سیکھا ہو —
جو سانسوں کی گنتی سے آگے بڑھ کر
لمحوں کی کیفیت میں زندہ رہا ہو۔
آسمانی ہجرتیں
انسان کو اس کے حقیقی مقام کی طرف بلاتی ہیں۔
یہی تو وہ پل ہوتا ہے
جب “میں” کی دیوار گرتی ہے
اور “تو” کی وسعتیں آغاز لیتی ہیں۔
یہ ہجرت،
رب کی طرف ایک خاموش واپسی ہے،
جو نہ رختِ سفر مانگتی ہے،
نہ زادِ راہ —
بس اک قبولیت چاہیے…
اک جھکاؤ، اک نرمی، اک طلب…
جو روح سے اٹھے اور آسمان کی دہلیز پر دستک دے۔
اور جب یہ در کھلتا ہے…
تو نہ جسم باقی رہتا ہے،
نہ دنیا —
بس وصل کی گونج ہوتی ہے…
اور ایک ایسا سکوت،
جس میں خدا بولتا ہے۔

اپنی رائے سے آگاہ کریں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top