(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)
محبت کوئی عرضی نہیں ہوتی، نہ ہی کسی تمنّا کا کمزور سا سایہ—یہ تو ایک درویش صفت بادشاہی ہے، جو خاموشی کے تخت پر بیٹھی، اپنے وقار کے دائرے میں سب کچھ دیکھتی، جانتی اور سہتی ہے۔ اس کی پیدائش نہ چہرے کی کشش سے ہوتی ہے، نہ آواز کے سحر سے۔ یہ نہ خواب کی طرح بنتی ہے، نہ خواہش کی طرح بکھرتی ہے—بلکہ یہ ایثار کے بطن سے جنم لینے والا وہ مقدس لمحہ ہے، جس میں انسان اپنے نفس کو کسی دوسرے کی راحت کے لیے قربان کر دیتا ہے، بغیر کسی صلے، بغیر کسی امید کے۔
لوگ جب محبوب کو محبت کا مرکز بنا لیتے ہیں، تو وہ سمجھتے ہیں کہ وہ عبادت کر رہے ہیں، مگر وہ بھول جاتے ہیں کہ فانی کو مرکز بنانا دراصل محبت کی توہین ہے۔ محبوب اگر خدا بن جائے، تو محبت غلام بن جاتی ہے—اور محبت کبھی غلام نہیں ہوتی۔ محبت تو وہ شہزادی ہے جو احترام کی چادر اوڑھے، انا کے درباروں سے دور، وفا کی گلیوں میں ننگے پاؤں چلتی ہے۔ وہ کسی کے غرور کا سہارا نہیں لیتی، وہ خود اپنا سہارا ہوتی ہے۔
محبت کی عزت، محبوب سے بلند تر ہے۔ اگر تم محبت کو اس کے اصل مقام سے گرا کر محبوب کے قدموں میں رکھ دو گے، تو نہ صرف محبت رسوا ہو گی، بلکہ تم خود بھی اپنی ذات کے ملبے تلے دب جاؤ گے۔ محبوب کو مرکز بنا کر محبت کو اس کے پاؤں کی خاک کر دینا ایسا ہے جیسے چراغ کو قید کر کے اس سے روشنی کی امید رکھنا۔
محبت میں جب حد سے زیادہ جھکا جائے، تو محبوب اسے اپنا حق سمجھ لیتا ہے۔ وہ تمہاری عاجزی کو کمزوری جاننے لگتا ہے، اور تمہارا جذبہ اس کی انا کا ایندھن بن جاتا ہے۔ تم ہر روز خود کو گراتے چلے جاتے ہو، حتیٰ کہ ایک دن تمہارے اندر کی محبت تمہیں آئینہ دکھاتی ہے—نہ شکوہ، نہ شکایت، نہ فریاد۔ بس ایک ہلکی سی سنجیدہ ہنسی، اور ایک گہرا سنّاٹا جو عمر بھر تمہارے وجود میں گونجتا رہتا ہے۔
محبت سوال نہیں کرتی، فیصلے سناتی ہے۔ وہ صبر کا کمال ہے، خاموشی کی عدالت ہے، اور عزت کی معراج ہے۔ اگر محبوب اسے روند دے، تو محبت احتجاج نہیں کرتی—وہ بس اپنے دامن میں زخم سمیٹ کر دور کھڑی ہو جاتی ہے، کہ کہیں اس کے زخم محبوب کی انا پر بوجھ نہ بن جائیں۔
یاد رکھو، محبوب محبت کا ثمر ہے، جڑ نہیں۔ وہ بدل سکتا ہے، تھک سکتا ہے، چاہے نہ چاہے۔ مگر محبت—وہ ازل سے ابد تک ایک ہی کیفیت میں رہتی ہے۔ وہ نہ مانگتی ہے، نہ چھینتی ہے، بس دیتی ہے—اور دیتے دیتے فنا ہو جاتی ہے، مگر اپنا مقام نہیں چھوڑتی۔
جب ہم محبت کو محبوب کی چوکھٹ پر رکھ کر اس سے عظمت کی بھیک مانگنے لگیں، تو دراصل ہم محبت کی روح کو قید کر لیتے ہیں۔ اور جب محبوب خود کو محبت سے اونچا سمجھنے لگے، تو وہ صرف محبت نہیں کھوتا، اپنی انسانیت بھی ہار دیتا ہے۔
محبت کا حقیقی کمال اس میں ہے کہ وہ خود کو کبھی گراتی نہیں۔ اور محبوب کا اصل وقار اس میں ہے کہ وہ محبت کو کبھی روندتا نہیں۔ جب یہ توازن قائم رہے، تبھی عشق پروان چڑھتا ہے—ورنہ محبت خاموش ہو جاتی ہے، اور محبوب تنہا رہ جاتا ہے۔
پس محبت کو اُس کے مقام پر رہنے دو۔ اسے وہ عزت دو جو تم خدا کے کلام کو دیتے ہو۔ کیونکہ محبت وہی لمحہ ہے جب تم اپنے اندر کے جھوٹ سے نکل کر سچائی سے ملتے ہو، جب تمہاری ذات کا افق کسی دوسرے کی خوشبو سے روشن ہو جاتا ہے۔
محبت عبادت ہے—اسے کسی فانی انسان کے قدموں کی خاک مت بناؤ۔
محبت بادشاہی ہے—اسے محبوب کی غلامی پر مجبور مت کرو۔
اور سب سے بڑھ کر، محبت وہ آئینہ ہے جس میں تم خود کو سب سے سچا دیکھ سکتے ہو