بت، خوف اور بھولے ہوئے عہد

(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)

انسان کی تخلیق ایک بلند اور پاکیزہ نعرے کے ساتھ ہوئی:
لَا إِلَـٰهَ إِلَّا ٱللَّهُ
(اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں)
یہ صرف ایک عقیدہ نہیں، بلکہ انسان کی فطرت میں پیوست عہدِ ازل کا اعلان ہے — جیسا کہ قرآن کہتا ہے:
أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ ۖ قَالُوا بَلَىٰ ۛ شَهِدْنَا
(“کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟” سب نے کہا: کیوں نہیں، ہم گواہ ہیں)
[الاعراف 7:172]
یہ وہ عہد تھا جہاں ہر روح نے اللہ کی ربوبیت پر گواہی دی، اور یہ فطرت — یہ توحید — ہر انسان کے دل میں بطور ودیعت رکھ دی گئی۔
مگر جیسے ہی انسان نے زمین پر قدم رکھا، اور زمان و مکان کی گرد نے دل پر پڑنا شروع کی، وہ اس پہچان کو بھول بیٹھا۔ اُس نے خوف کو اپنے دل کا راہبر بنا لیا، اور رب کی محبت اور یقین کی جگہ، اندیشوں، وسوسوں اور کمزوریوں کو دے دی۔
انسان نے سب سے پہلے خوف کو معبود بنایا۔ یہ خوف ابتدا میں مظاہرِ قدرت سے تھا — آسمان کی گرج، زمین کی لرزش، رات کی تاریکی، طوفان کی دہشت۔ اور پھر آہستہ آہستہ یہ خوف مجسم ہونے لگا۔
پہلے اس خوف کو پتھروں اور درختوں میں سمویا گیا، پھر بادشاہوں، جادوگروں اور عالموں کے ہاتھ میں تھمایا گیا، اور آخرکار انسان نے اپنے نفس اور خواہش کو معبود بنا لیا۔
أَفَرَءَيْتَ مَنِ ٱتَّخَذَ إِلَـٰهَهُۥ هَوَىٰهُ
(“کیا تم نے اُسے دیکھا جس نے اپنی خواہش کو اپنا خدا بنا لیا؟”)
[الجاثیہ 45:23]
لیکن انسان ہمیشہ تاریکی میں نہیں رہا۔ کچھ دل ایسے تھے جو خوف کے پردوں کے پیچھے چھپی روشنی کو پہچان گئے۔
ابراہیم علیہ السلام نے وہ سب دیکھا، جسے لوگ خدا سمجھتے تھے — ستارے، چاند، سورج — اور فرمایا:
إِنِّى لَآ أُحِبُّ ٱلْءَافِلِينَ
(“میں اُنہیں پسند نہیں کرتا جو غروب ہو جاتے ہیں”)
[الانعام 6:76]
یہ ایک فکری بغاوت تھی — بتوں، مظاہر فطرت اور جھوٹے خداؤں کے خلاف۔
اور پھر وہ ہستی آئی جو “اُمّی” تھی، مگر تمام جہانوں کے لیے نور بن کر آئی:
قُلْ هُوَ ٱللَّهُ أَحَدٌ ٱللَّهُ ٱلصَّمَدُ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُن لَّهُۥ كُفُوًا أَحَدٌ
یہ سورت فقط ایک اعلان نہیں، بلکہ فکری توحید کی اساس ہے — کہ نہ کوئی خوف ہے، نہ کوئی واسطہ، نہ کوئی شریک، نہ کوئی دوسری پناہ۔
افسوس، آج بھی انسان وہی ہے — صرف بتوں کی صورتیں بدل گئی ہیں۔
آج کا انسان پتھر سے نہیں ڈرتا، مگر تنہائی، رد، غربت، بیماری، سوشل ریجیکشن اور موت سے لرزتا ہے۔
آج کے بت، بینک بیلنس، شہرت، طاقت، لائیکس، اسٹیٹس، عہدے اور معاشرتی قبولیت ہیں۔
یہ سب خوف کے بت ہیں — جو رب کی یاد اور محبت کو دل سے نکال دیتے ہیں۔
فَذَكِّرْ إِن نَّفَعَتِ ٱلذِّكْرَىٰ سَيَذَّكَّرُ مَن يَخْشَىٰ وَيَتَجَنَّبُهَا ٱلْأَشْقَى
الاعلیٰ 87:9–11
خوف صرف اُس وقت ٹوٹتا ہے، جب انسان رب سے محبت کرنا سیکھے۔
جب انسان یقین کر لے کہ:
ٱللَّهُ وَلِىُّ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ ۖ يُخْرِجُهُم مِّنَ ٱلظُّلُمَـٰتِ إِلَى ٱلنُّورِ
(اللہ ایمان والوں کا دوست ہے، وہ انہیں تاریکیوں سے روشنی کی طرف نکالتا ہے)
البقرہ 2:257
توحید وہ روشنی ہے جو خوف کے ہر اندھیرے کو چیر دیتی ہے۔
یاد رکھو، جہاں خوف معبود بن جائے، وہاں ایمان مر جاتا ہے۔
آج بھی دل کے نہاں خانے میں وہی پکار سنائی دیتی ہے جو عہدِ ازل میں تھی:
“ہاں! تو ہی ہمارا رب ہے!”
اگر انسان اپنے خوف کو پہچان لے، تو اسے اپنے رب کی تلاش دوبارہ آسان ہو جائے گی۔
اگر وہ ان بتوں کو توڑ دے جو وہ سونے، چاندی، خواہش اور خوف کی شکل میں تراشتا ہے، تو اسے پھر وہی رب ملے گا — جو اس کا خالق ہے، اس کا رازق ہے، اس کا ساتھی ہے۔
اور یہ صدائے توحید تنہا ماضی کا حصہ نہیں —
بلکہ دورِ آخر میں پھر ایک صدا بلند ہوئی۔
وہ صدا جس نے کہا:
“آؤ اُس کی طرف جو خوف سے بلند ہے۔”
“آؤ اُس ذات کی طرف جو ہر ظاہری اور باطنی بت کا توڑ ہے۔”
یہ صدا حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؑ کی صدا تھی —
وہی مسیحِ موعود و مہدی معہود، جس نے تمام انسانیت کو ایک بار پھر خدائے واحد کی طرف بلایا۔
جنہوں نے اپنے وجود سے یہ آواز دی:
“میرا خدا وہ خدا ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔”
“وہی زندہ ہے، وہی سنتا ہے، وہی بولتا ہے، وہی ہر اندھیرے میں روشنی ہے۔”
حضرت مسیح موعودؑ کی بعثت درحقیقت اسی بھولے ہوئے عہد کی تجدید ہے۔
انہوں نے ہمیں یاد کہ:
“انسان توحید پر پیدا ہوا تھا ۔۔خوف نے اسے بھٹکا دیا تھا، اب محبتِ الٰہی اُسے واپس بلا رہی ہے!”
کاش ہم اس صدا کو سن لیں،
کاش ہم ان بتوں کو توڑ دیں،
اور وہی بن جائیں جو ازل میں تھے — ربِ واحد کے سچے بندے،
خوف سے آزاد، محبت میں قائم،
اور توحید میں پختہ۔

اپنی رائے سے آگاہ کریں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top