(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)
زندگی ایک سفر ہے — پیچیدہ، غیر ہموار، اور اکثر تنہا۔ اس راہ پر ہم سب چل رہے ہیں، مگر کسی کی رفتار کو دیکھ کر اس کی راحت کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ بسا اوقات جو شخص سب سے پُراعتماد دکھتا ہے، وہی اندر سے سب سے زیادہ بکھرا ہوتا ہے۔
ہم دوسروں کی زندگی کو سطحی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ وہ کیسے چل رہے ہیں، کہاں پہنچے ہیں، کتنی کامیابیاں سمیٹی ہیں۔ لیکن ہم یہ نہیں جانتے کہ ان کے ہر قدم کے نیچے چھپے زخم کیسے ہیں، کس کس موڑ پر وہ خود کو سہارا دے کر سنبھلے ہیں، اور کتنے بار وہ ہنسے صرف اس لیے کہ آنسو بہانے کی اجازت نہیں تھی۔
یہ انسانی فطرت ہے کہ ہم دوسروں کے راستے پر نظریں رکھیں اور اپنی تکلیف کو سب سے بڑا سمجھیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہر پاؤں کے نیچے ایک چھالا ہوتا ہے—جو صرف اس شخص کو محسوس ہوتا ہے جس کا وہ پاؤں ہے۔ ہم کسی کے دکھ کو مکمل طور پر نہیں سمجھ سکتے، نہ ہی اس کے خوف کو ناپ سکتے ہیں۔ اس لیے سب سے بڑی دانش یہی ہے کہ ہم دوسروں کے بارے میں جلدی رائے قائم نہ کریں۔
زندگی ہمیں ہر موڑ پر یہ سکھاتی ہے کہ اصل ہنر یہ نہیں کہ ہم دوسروں پر انحصار کریں، بلکہ یہ ہے کہ ہم خود اپنے اندر وہ طاقت پیدا کریں جو ہمیں سنبھال سکے۔ کیونکہ اکثر وہ لمحے بھی آتے ہیں جب نہ کوئی دوست ساتھ ہوتا ہے، نہ ہمراز، نہ سایہ۔ اور تب انسان کو صرف ایک ہی سہارا ہوتا ہے: وہ خود۔
یہی وہ مقام ہے جہاں انسان کی اصل شناخت ابھرتی ہے۔ وہ چپ رہ کر برداشت کرتا ہے، مسکرا کر آنسو چھپاتا ہے، اور بکھر کر خود کو سمیٹتا ہے۔ یہی اصل بہادری ہے۔ اور یہی وہ لمحہ ہے جہاں انسان کا باطن، اس کا کردار، اور اس کی عظمت ظاہر ہوتی ہے۔
ہمیں چاہیے کہ جب ہم کسی کو مسکراتا دیکھیں، تو سمجھیں کہ اس مسکراہٹ کے پیچھے کوئی طوفان دبا ہے۔ جب کسی کو خاموش پائیں، تو جانیں کہ وہ شاید بول کر نہیں، سہہ کر جینا سیکھ رہا ہے۔ اور جب کوئی ہمیں سنبھلتا دکھے، تو اس کی ہمت کو سلام کریں، نہ کہ اس کی رفتار پر تنقید۔
دنیا میں اگر کچھ سیکھنا ہے تو سب سے پہلے یہ سیکھیں:
کبھی کسی کے چھالے نہ ناپو، کیونکہ تم نے اس کے پاؤں نہیں پہنے۔