آج کا المیہ: قربِ خدا کا خوف

(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)

آج کا انسان بے شمار فکری، معاشرتی اور روحانی الجھنوں میں گھرا ہوا ہے، لیکن ان سب میں سب سے نازک اور نادیدہ مسئلہ وہ ہے جسے وہ خود بھی مسئلہ نہیں سمجھتا— قربِ خدا کا خوف۔
یہ ایک ایسا خوف ہے جو نہ دشمن کی طرف سے ہے، نہ کسی خارجی سازش کا نتیجہ، بلکہ یہ انسان کے اندر سے اٹھتا ہے۔ یہ وہ اضطراب ہے جو روشنی سے گھبراتا ہے، وہ جھجک ہے جو سچ کے قریب آتے ہی پیچھے ہٹ جاتی ہے۔ بظاہر یہ بات عجیب لگتی ہے کہ کوئی خدا کے قریب آنے سے ڈرے، لیکن حقیقت میں یہ ایک روحانی بیماری ہے جو دلوں پر چھا گئی ہے، اور نفس نے اسے اس خوبی سے چھپا رکھا ہے کہ انسان اسے ترقی، عقلیت اور آزادی کا نام دے بیٹھا ہے۔
آج کا مسلمان خدا سے دور نہیں بھاگ رہا، وہ بس اُس کی قربت کی قیمت ادا کرنے سے کترا رہا ہے۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اللہ کی قربت کوئی رسمی عبادت نہیں، بلکہ نفس کی نفی، خواہشوں کی قربانی، اور ذات کی ازسرنو تعمیر ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اس راہ میں لفظ “میں” کو گرا کر “تو” کو اٹھانا پڑتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں دل کانپنے لگتا ہے، اور وہ خوف جنم لیتا ہے جو انسان کو اپنے ہی رب کے در سے ہٹا دیتا ہے۔
قربِ خدا ایک چراغ ہے جو روشنی ضرور دیتا ہے، لیکن پہلے باطن کو جلا کر پاک کرتا ہے۔ یہ وہ روشنی ہے جو اندھیرے کی عادت ڈالے ہوئے آنکھوں کو خیرہ کر دیتی ہے۔ انسان کی روح جانتی ہے کہ اگر وہ اس نور کے سامنے کھڑا ہو گیا، تو جھوٹ، مکر، ریا اور فریب کے سارے پردے چاک ہو جائیں گے۔ یہی وہ نکتہ ہے جہاں انسان شعوری یا غیر شعوری طور پر خود کو روک لیتا ہے۔
حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ خدا کے قریب ہونا بوجھ نہیں، آزادی ہے۔ خوف نہیں، سکون ہے۔ ترکِ دنیا نہیں، بلکہ دنیا کو اس کے اصل مقام پر رکھنا ہے۔ قربِ خدا انسان کو کمزور نہیں کرتا، بلکہ وہ باطنی قوت عطا کرتا ہے جو بادشاہوں کو نصیب نہیں۔ بدی سے رکنا، نفس کو قابو میں لانا، اور خود کو بدلنا— یہی سب سے بڑا مجاہدہ ہے، یہی سب سے بڑا وظیفہ ہے۔
اور جب انسان اس رضا کی طرف بڑھتا ہے، تو رب کی رحمت اس کا استقبال کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ تو بچوں کی طرح راضی ہو جاتا ہے۔ وہ تو بس سچائی چاہتا ہے، اعتراف چاہتا ہے، جھکی ہوئی گردن اور بھیگی آنکھیں چاہتا ہے۔ لیکن اگر تم فریب کرو گے، بہانے بناؤ گے، تقدیر پر الزام دو گے، تو یاد رکھو، وَاللّٰہُ خَیْرُ الْمَاکِرِیْنَ۔ وہ تمہارے مکر کو مٹا دے گا، اور تمہیں وہیں لا کھڑا کرے گا جہاں سچ کے سوا کچھ باقی نہ رہے گا۔
غارِ ثور کے دہانے پر بنا کمزور سا مکڑی کا جالا، جب خدا کی دلیل بن جائے، تو سمجھ لو کہ اللہ کے کام منطق سے نہیں، محبت اور اخلاص سے سمجھ میں آتے ہیں۔
پس، یہ نہ کہو کہ “میں کیا کرتا، حالات ہی ایسے تھے”۔ یہ کہو کہ “ربّا غلطی ہو گئی، معاف کر دے”۔ یہی پہلا قدم ہے، یہی اصل دعا ہے، یہی قرب کی ابتدا ہے۔
اپنے اندر کے خوف کو پہچانو— اگر وہ گناہ کا ہے تو رحمت قریب ہے، اور اگر وہ قربِ الٰہی کا ہے، تو یہ تمہیں خود اپنی ذات سے بچنے کا بہانہ دے رہا ہے۔
خدا تمہارے قریب آنا چاہتا ہے، سوال صرف اتنا ہے:
کیا تم خود سے دور جانے کو تیار ہو؟

اپنی رائے سے آگاہ کریں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top