شبِ ساکت: حجاب کے پار کی ہمکلامی

(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)

رات…
محض وقت کا ایک حصہ نہیں بلکہ کائناتی سکوت کا وہ لمحہ ہے، جس میں روز و شب کی گردش تھک کر دم لیتی ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں مادی ہنگاموں کی گرد بیٹھتی ہے، اور روحانی افق پر خفیہ صدائیں ابھرنے لگتی ہیں۔ بظاہر ایک گہری تاریکی، لیکن دراصل وہ آئینہ ہے جس میں حقیقتِ وجود اپنی صورت دکھاتی ہے۔
دن روشنی کا علمبردار ہے، لیکن اس کی روشنی کا ایک المیہ یہ ہے کہ وہ صرف ظاہر کو روشن کرتی ہے۔ رات، اس کے برعکس، ایک ایسا حجاب ہے — دبیز، خاموش، پرسکون — جو انسان کے حواسِ خمسہ کو خاموش کر کے حسِ ششم کو بیدار کرتا ہے؛ وہ چھٹی حس جو دل کے اندر دھڑکتی ہے، اور روح کے دریچوں کو کھولتی ہے۔
یہ حجاب دراصل عرفان کا دروازہ ہے۔
جب نیند کی چادر میں جسم مٹی سے لپٹتا ہے، تب جاگتا ہے وہ مرکز جو خاک سے نہیں، نور سے بنا ہے — روح۔ یہی وہ لمحہ ہے جب خالق و مخلوق کے بیچ حائل پردے لرزنے لگتے ہیں، اور خاموشی کی زبان میں مکالمہ ہونے لگتا ہے۔ یہ گفتگو لفظوں سے نہیں، کیفیتوں سے ہوتی ہے۔ آنکھیں بند، مگر دل بیدار۔ لب خاموش، مگر روح گویا۔
عارفین کی نگاہ میں رات محض نیند کا وقت نہیں، بلکہ مکاشفہ کا میدان ہے۔
یہ وہ ساعتِ سحر ہے جب وقت اپنے مفہوم کھو دیتا ہے اور مقام اپنی حدود سے باہر نکل جاتا ہے۔ یہاں ماضی، حال اور مستقبل ایک صفحے پر سمٹ آتے ہیں؛ یہاں دعائیں صدائیں نہیں، راز بن جاتی ہیں؛ یہاں گریہ عبادت ہے، اور خامشی وحی۔
ہر وہ شخص جو دن کی روشنی میں خود کو تلاش نہ کر پایا، رات کی تنہائی میں اگر دل سے سوال کرے، تو وہ جوابات پاتا ہے۔
اس تنہائی میں دل پر وہ صدائیں اترتی ہیں جو نہ بولی جاتی ہیں، نہ سنی جاتی ہیں، بلکہ محسوس کی جاتی ہیں۔ یہ وہ وقت ہے جب انسان، خود سے، اپنے رب سے، اپنے مقدر سے — ہمکلام ہوتا ہے۔
رات وجودِ خاکی پر تنہائی کا کمبل ڈالتی ہے، مگر باطن کی دہلیز پر اسرار کے چراغ جلنے لگتے ہیں۔
ہر خاموشی میں ایک صدا گونجتی ہے، اور روح، حجابِ شب کے پیچھے چھپے کسی ماورائی راز سے ہمکلام ہوتی ہے۔ جو سالک کو ظاہری کائنات کی شوریدہ گلیوں سے اٹھا کر، روحانی سناٹوں کے عرش پر لے جاتی ہے، جہاں صرف خامشی بولتی ہے اور صرف سناٹا سنائی دیتا ہے۔
یہ گہرا دبیز پردہ دن کے اجالے سے زیادہ روشن ہے۔
بظاہر یہ تاریکی کا سمندر ہے، مگر درحقیقت یہ عرفان کا آئینہ ہے۔ دن میں جو کچھ دکھائی دیتا ہے، وہ محض عکس ہے؛ رات وہ لمحہ ہے جب عکس اصل میں ڈھلتا ہے، جب سرگوشیاں صحیفے بن جاتی ہیں، اور سکوت مکتوباتِ غیبی کی صورت اختیار کرتا ہے۔
رات کے سناٹے میں جب ہر صدا سو جاتی ہے، تو ایک اور صدا بیدار ہوتی ہے — یہ وہ صدا ہے جو کانوں سے نہیں، دل کے خلا سے سنی جاتی ہے۔
یہی وہ لمحہ ہے جب روح ہمکلام ہوتی ہے — اپنے خالق سے، اپنی فطرت سے، اور اپنے مقدر سے۔
عارف کی نظر میں رات کوئی عام وقت نہیں، یہ بابِ مکاشفہ ہے، وہ لمحہ ہے جب ذات کا آئینہ بےپردہ ہوتا ہے۔
یہاں نہ وقت کی قید باقی رہتی ہے، نہ مکان کی حد۔ انسان ایک ذرہ ہوتے ہوئے بھی کہکشاؤں سے مکالمہ کرتا ہے۔ رات کی تاریکی میں وہ نور چھپا ہے جو دن کے اجالے میں گم ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عارف دن کو جسم کا وقت سمجھتا ہے، اور رات کو روح کا لمحہ۔
جب ساری دنیا نیند کی چادر اوڑھ کر مٹی میں گم ہو جاتی ہے، تب وہ بندہِ دل سوز، جس کی آنکھوں میں آنسو اور دل میں شوقِ وصال ہوتا ہے، وضو کے پانی سے صرف چہرہ نہیں، دل بھی دھوتا ہے۔
پھر جب وہ سجدے میں گرتا ہے، تو محض زمین کو نہیں چھوتا، بلکہ عرشِ حق کے دروازے پر دستک دیتا ہے۔
یہ وہ وقت ہے جب دل اپنی آواز سنتا ہے، آنکھیں خوابوں سے آگے کی دنیا دیکھتی ہیں، اور روح اپنے مالک کے حضور دست بستہ کھڑی ہوتی ہے، اور کہتی ہے:
“میں سن رہی ہوں، تو بول، اے ذاتِ بےحجاب!”
سو جان لو —
جب رات چھا جائے تو سمجھ لیجیے کہ یہ دن کی نیند نہیں، بلکہ روح کا بیدار لمحہ ہے۔
یہ وہ وقت ہے جب پردے اٹھتے ہیں، حجاب ہٹتا ہے، اور اسرارِ الٰہی کا ہلکا سا پرتو دل پر اترتا ہے۔
جو اس لمحے کو پا گیا، وہ گویا حیاتِ جاوداں کے ذوق سے آشنا ہو گیا۔

اپنی رائے سے آگاہ کریں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top