تنکے کا سہارا یاد تو آتا ہو گا
اک ہجر کا مارا یاد تو آتا ہو گا
اَنا کے ہاتھوں تیرگی کے سفر میں
مقدر کا ستارہ یاد تو آتا ہو گا
تیری گلی سے جو خراب حال گزرا تھا
لعلوں کا ونجارہ یاد تو آتا ہو گا
ریت بگولے جب گھیرا ڈالتے ہونگے
دریا کا دھارا یاد تو آتا ہو گا
رفتہ رفتہ بنجر ہوتی دھرتی کو نعیم
اک بے دخل مزارعہ یاد تو آتا ہو گا