چلو کوئی تو ضابطہ طے ہوا
ٹوٹے گا اب نہ رابطہ طے ہوا
یقین کی وادی میں جو ٹھرا ہے
حق کا وہی ہے قافلہ طے ہوا
جب قدم ملیں گے قدموں سے
پھر کاٹ لیں گے راستہ طے ہوا
وجہء عقیدت جو ہیر کے پڑھنے میں
وہی معتبر ہے واسطہ طے ہوا
آج موڑ دیا میرا دلاسہ تو نے
کس درجہ ہے تیرا حوصلہ طے ہوا
وہ کرے گا مشقِ برق نعیم
ہدف ہو گا تیرا گھونسلہ طے ہوا