کوئی اور راہ وہ اختیار کر گیا
میں اُس کے لوٹنے کا اعتبار کر گیا
جبر کی انتہا توڑ رہا ہے
میری سانسیں جب سے شمار کر گیا
کانٹوں پر بچھا کر پتیاں گلاب کی
میرا منتظر یوں راہ پرخار کر گیا
جانے کیا ضرورت تھی پیش اُس کے
خریدار تھا نقد کا ادھار کر گیا
خوش فہمیوں میں چھوڑا جو در نعیم
وہ پلٹا پلٹ کر وار کر گی