بند آنکھوں سے نظارے ڈھونڈتا رہتا ہوں
پلکوں پہ ٹوٹے تارے ڈھونڈتا رہتا ہوں
وہ کیا بچھڑا کہ سارا قبیلہ بکھر گیا
اب نگر نگر ہجر کے مارے ڈھونڈتا رہتا ہوں
مدت گزری آنکھوں سے نیند کی نسبت ٹوٹ چکی
لاحاصل خواب ادھارے ڈھونڈتا رہتا ہوں
بینائی تو سب دھول ہوئی اُن راہوں میں
ہاتھوں سے نظروں کے اشارے ڈھونڈتا رہتا ہوں
ستم رسیدہ قوم میری اے کاش بغاوت کر دے
دن بھر گلیوں میں نعیم مظاہرے ڈھونڈتا رہتا ہوں