غم کی وادی میں درد کی انتہا گزرتی ہے

غزل

غم کی وادی میں درد کی انتہا گزرتی ہے
قیامت جسے کہتے ہیں بارہا گزرتی ہے

قدر اک مشترک ہے ہجر کے ماروں میں
ان کے سینہ بہ سینہ کراہ گزرتی ہے

مریضِ کہن چوراہے میں آن بیٹھا ہے
سنا ہے ان گلیوں سے شفاء گزرتی ہے

کسی ایک قیامت سے گزرتے تو خیر تھی
قیامت جدا سے در قیامت جدا گزرتی ہے

دل کی تو خدا جانے، اتنا فخر ہے نعیم
نقاب اوڑھے تیری یاد باحیا گزرتی ہے

نعیم باجوہ

اپنی رائے سے آگاہ کریں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top