دار و رسن کے درمیاں گھونسلہ ہمارا ہے
ہم پھر بھی جی رہے ہیں یہ حوصلہ ہمارا ہے
پھلجھڑیاں اڑ رہی ہیں کہیں جل رہا ہے آشیاں
وہ تقریب ہے تمہاری یہ سانحہ ہمارا ہے
بانٹ لیتے ہیں واعظ جی اسلاف کے اثاثے
محراب و منبر تمہیں مبارک، مے خانہ ہمارا ہے
نصب ہو رہی ہے دار پھر کسی منصور کی
تم دیکھنے تو آؤ، یہ تماشہ ہمارا ہے
راہِ وفا میں کانٹے بکھیرنے والو
پلکوں سے چنیں گے یہ راستہ ہمارا ہے
ہم جو پکاریں تو اتر آئے زمین پر
اس درجہ اُس سے واسطہ ہمارا ہے
گالیاں سُن کر دعا دینا، پا کے دکھ آرام
طائف کے باسیو سنو یہ ضابطہ ہمارا ہے
بہاریں ترس رہی ہیں جس سے بات کرنے کو
ان دنوں اُس سے نعیم رابطہ ہمارا ہے