گریباں پکڑتا ہوں تو دامن چھوٹ جاتا ہے

غزل

گریباں پکڑتا ہوں تو دامن چھوٹ جاتا ہے
راہزن پہ نظر کرتا ہوں تو رہبر لُوٹ جاتا ہے

آسماں بےبس ہوتا ہے تم سے گلہ کیسا
گردش میں جو آ جائے ستارہ ٹوٹ جاتا ہے

موج میں ہو دریا تو بھرم رکھتی ہیں لہریں بھی
گھڑا کیا چیز ہے کنارہ ٹوٹ جاتا ہے

آتش فشاں ہوتا ہے ،ہجر زدہ سینہ
آنکھیں روک نہیں پاتیں لاوا پھوٹ جاتا ہے

روز کرتا ہوں پھر سے دل کو پتھر نعیم
وہ سنگ چور روزانہ کُوٹ جاتا ہے

نعیم باجوہ

اپنی رائے سے آگاہ کریں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top