تیرا تصور جو کبھی جدا سا لگتا ہے
تکمیلِ ذات میں خلا سا لگتا ہے
رسمًا کیا کرتے تھے مگر اب تو
تیرا ذکر ردِ بلا سا لگتا ہے
مجبوری کچھ نہیں انتخاب ہے میرا
درپیش سفر جو کربلا سا لگتا ہے
سو بار جئیوں پھر بھی پڑھوں اُس کو
حرف حرف وہ شخص دعا سا لگتا ہے
اُس کی پرستش کا تیرا دعویٰ نعیم
عدو بھی کہتے ہیں بجا سا لگتا ہے