روک لیتی تھی نہیں تو ساتھ چلتی تھی
اب اُسے کہاں سے ڈھونڈوں جو ساتھ چلتی تھی
میری ہر عادت میں خود کو ڈھالا اُس نے
نیند میں بھی چلتا تھا تو ساتھ چلتی تھی
اعتراف ہے مجھے ترکِ تعلق کے بعد بھی
چھوڑ جاتا تھا جہاں سایہ وہ ساتھ چلتی تھی
دو ہاتھ فاصلہ بھی بڑھے چلے جاتا ہے اب تو
راہیں سمٹ جاتی تھیں وہ جو ساتھ چلتی تھی
اُس سے بچھڑ کر تنہا ہوں پھول راہوں میں نعیم
پاؤں میں چھالے راہ میں کانٹے کچھ بھی ہو ساتھ چلتی تھی