زمیں بھوکی ہے سمندر پیاسہ ہے
وقت کے منکروں کا مقدر پیاسہ ہے
ستم یہ ہے کہ مٹی نہیں میسر
کوزہ گروں کا ہنر پیاسہ ہے
نہ راہ پرخار، نہ پاؤں میں چھالے
ایذا پسندوں کا سفر پیاسہ ہے
جھوٹی تسلی کے سوا کچھ نہیں دیتے
دیوتاؤں کے ہاتھوں مقدر پیاسہ ہے
ششے چکنا چور ہوئے پھر بھی
بےسکت ہاتھوں میں پتھر پیاسہ ہے
ہر سنگ و خشت خُوں میں ڈوبا ہے نعیم
تیرا وجودِ آشفته سر پیاسہ ہے