مٹ گیا میں تو بس نشان باقی ہے
زندگی اور کتنا تیرا تاوان باقی ہے
میں تو اترا تھا یقین کی وادی میں
ماندِ خواب چُور ہوا گمان باقی ہے
تفریق ہوا نہ کوئی غم لگی ضرب پہ ضرب
کاتبِ تقدیر ابھی تیرا میزان باقی ہے
زہرِ ہلاہل تو پی چکا ہوں کئی بار
کوئی اور دوا دو کہ ابھی جان باقی ہے
تندور راہ ہے اور میں آبلہ پا برہنہ
کوچ کا نقارہ ہے سفرِ بیابان باقی ہے
صحرائے دشت میں سبیل نہیں ہوتی
پیاس سے پیاس بجھانے کا سامان باقی ہے
لاتقناتو کی صدا آ رہی ہے بار بار
کہہ رہا ہے میرا مولا میرا فرمان باقی ہے
غم نہ کر اتر آیا ہے اگر سوا نیزے پر
تیرے سر پر میری رحمت کا سائبان باقی ہے
پار اترے گا تیرا قافلہ درد کی وادی سے
صبر جو ٹھرا تیرا ساربان باقی ہے
غم نہ کر آتشِ نمرود بنے گی گلزار نعیم
تیرے دل میں ابراہیم کا ایمان باقی ہے