یومِ عشور تھا اور کربلا گزری تھی

غزل

یومِ عشور تھا اور کربلا گزری تھی
یہی روز تھا مجھ سے ماں بچھڑی تھی

ہر بات منا لیتی تھی رب سے میرے حق میں
ماں کے ہوتے کبھی رب کی ضرورت نہ پڑی تھی

اب حوادث میں نہیں ملتی کہیں جائے پناہ
فلک تک جو بلند تھی میری دیوارِ دعا گری تھی

ہر سانس میں چلتی تھی خون میں تھی رواں
رب سے کہیں پہلے وہ میری تسلی تھی

وقت دیکھنے آیا میری تنہائی کا تماشہ
ماں تیری روح میرے ساتھ کھڑی تھی

بھلا یوں بھی کوئی بچھڑتا ہے اتنا تو بتاؤ
ہاتھ میں ہاتھ تھا،گود میں سر اور ماں چلی تھی

جنت کے بھاگ کُھلے تھے اُس روز صبح صبح
بادِ نسیم ،نعیم سوئے جنت چلی تھی

نعیم باجوہ

اپنی رائے سے آگاہ کریں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top