مت چھوڑ پارسائی ، وفاؤں میں رہ کے جی
اٹھتے ہیں جو سوال جوابوں میں رہ کے جی
لوگوں نے کر لیا ہے طلب اک عذابِ جاں
بستی سے بھاگ اور سرابوں میں رہ کے جی
دنیا الٹ رہی ہے حسیں تر بساط یہ
سو تو بدلتے رنگ خیالوں میں رہ کے جی
اے حرفِ جاوداں تو اڑا دے لکھا ہوا
کہتا ہے کون تجھ سے کتابوں میں رہ کے جی
ہے موت میں حیات ، عمل میں ہیں منزلیں
لہروں سے جا لپٹ یا کناروں میں رہ کے جی
تجھ پر نعیم بند ہو ئے گھر کے راستے
جا جا کے اجڑی دل کی سراؤں میں رہ کے جی