ہم کو ہر جبر گراں گزرا ہے
ان کو گر حشر گراں گزرا ہے
ابر سے کِھل اٹھا ہے صحرا تو
دشت کو صبر گراں گزرا ہے
اب بھی کٹیا میں کوئی رہتا ہو گا
اس کو کب قصر گراں گزرا ہے
مغز وہ لے گئے ہیں پاس اپنے
دیکھنا قشر گراں گزرا ہے
زندہ درگور کیا جاتا ہے
قبر کا حشر گراں گزرا ہے
جب بھی یاد آئی ہے نعیم اس کی
دیکھنا بدر گراں گزرا ہے