وہ درد کی گرد سے اٹا نکلا ہے

غزل

وہ درد کی گرد سے اٹا نکلا ہے
خندہ لب تھا جو غم زدہ نکلا ہے

اک حرفِ تمنا جسے کمتر جانا
لب آ کر انہی کا مدعا نکلا ہے

کہتے تھے تبسم اور آنسو ہیں ساتھ
وہ تو صدیوں کا فاصلہ نکلا ہے

ہم راکھ میں خواب ڈھونڈنے نکلے تھے
لیکن وہاں تو شعلہ دبا نکلا ہے

ہم روشنی کی تمنا لے کر چلے تھے
مغرب سے اندھیروں کا سلسلہ نکلا ہے

کہتا ہے اخلاص پہ شک مت کرنا
ترشول لباس میں چھپا نکلا ہے

اب تو بے لباس پھرتا رہتا ہوں یہاں
آستیں سے مری اک اژدھا نکلا ہے

وہ جو کئے کج کلاہ پھرتا تھا نعیم
اس کی گلی کا گدا نکلا ہے

نعیم باجوہ

اپنی رائے سے آگاہ کریں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top