اور دوریاں تمہیں بڑھانی ہیں کیا

غزل

اور دوریاں تمہیں بڑھانی ہیں کیا
پھر ساری باتیں دھرانی ہیں کیا

گھر کے آنگن کو ناپ رہے ہو
نئی دیواریں اٹھانی ہیں کیا

گڑھے مردے اکھیڑ رہے ہو پھر
نئی لاشیں بچھانی ہیں کیا

اک نہر نکالی ہے گھر سے
ماں باپ کی یادیں بہانی ہیں کیا

جانے کیوں اتنے سنبھالے ہیں
یہ خط آیاتِ قرآنی ہیں کیا

چہرے پر تازگی کیوں نہیں ہے
تیری آنکھیں بارانی ہیں کیا

یہ ضد نہیں اچھی نعیم میاں
پھر انگلیاں کٹوانی ہیں کیا

نعیم باجوہ

اپنی رائے سے آگاہ کریں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top