کچھ مشکل ہے کنارہ ہو بھی سکتا ہے

غزل

کچھ مشکل ہے کنارہ ہو بھی سکتا ہے
عشق مجازی ہے دوبارہ ہو بھی سکتا ہے

عادت تو نہیں اسکی کر کے دیکھتے ہیں
اس کوشش میں خسارہ ہو بھی سکتا ہے

جاں سے جانے کا خطرہ بھی لاحق ہے
بچ گئے گر تو گزارا ہو بھی سکتا ہے

شہر امڈ آیا ہے اس کے جنازے ہر
جو کہتا تھا گزارا ہو بھی سکتا ہے

یہ جو روشنی پھیلی ہوئی ہے ہر سو نعیم
آنکھ سے ٹوٹا ستارہ ہو بھی سکتا ہے

نعیم باجوہ

اپنی رائے سے آگاہ کریں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top