ہم بھی ہیں آوارہ خیالوں کی طرح

غزل

ہم بھی ہیں آوارہ خیالوں کی طرح
وہ دور رہتا ہے غزالوں کی طرح

ہجرت کا قصہ بھول جاؤں کیسے
وہ یاد ہے مجھ کو حوالوں کی طرح

جانے کہاں بٹتی ہے دید کی مے
میری نظر سوکھے سفالوں کی طرح

میں اور کیا اس دل سے نرمی برتوں
اس کو رکھا ہے تیری گالوں کی طرح

زلفوں کو تیری مسئلہ کیا ہے
رہتی ہیں الجھی ہی سوالوں کی طرح

کردار پر انگلی نہ اٹھنے پائے
گزرے نعیم ساری مثالوں کی طرح

نعیم باجوہ

اپنی رائے سے آگاہ کریں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top