تحریر میں مری یہ ہنر جو ہے
یہ حرف حرف خون جگر جو ہے
یہ رات ہجراں کو لہو بخشا تھا
آیا نظر یہ رنگ سحر جو ہے
خلوت جاں میں مچی ہوئی ہے ہلچل
اس سمت میرا قصد سفر جو ہے
آنگن میں سنگ روز برستے ہیں
گھر ہی کے پہلو میں یہ شجر جو ہے
آئینے ایسے شرما نہیں جاتے
اس کا نعیم حسنِ نظر جو ہے
