میں جو خط لکھا ہوتا
پڑھنے کو دیا ہوتا
بار بار پڑھتا وہ
جو دیا جلا ہوتا
روح سے ملن ہوتا
جسم راستہ ہوتا
پر ذرا بڑے ہوتے
وہ تو اڑ گیا ہوتا
ہنسنے کا بھرم رہتا
پردہ جو گرا ہوتا
آنسو جو نہیں پیتا
دریا بہہ رہا ہوتا
وہ نعیم آتا تو
زخم بھر گیا ہوتا
غزل
میں جو خط لکھا ہوتا
پڑھنے کو دیا ہوتا
بار بار پڑھتا وہ
جو دیا جلا ہوتا
روح سے ملن ہوتا
جسم راستہ ہوتا
پر ذرا بڑے ہوتے
وہ تو اڑ گیا ہوتا
ہنسنے کا بھرم رہتا
پردہ جو گرا ہوتا
آنسو جو نہیں پیتا
دریا بہہ رہا ہوتا
وہ نعیم آتا تو
زخم بھر گیا ہوتا