نالاں ہوں کہ کیوں بولتا ہے
میں چُپ رہوں تو جنوں بولتا ہے
قامت مٹ بھی گیا اُس کا تو کیا ہو گا
یاد سَحر بولتی ہے، خیال فسوں بولتا ہے
وہ چاہے تو ہوا میں ابھر آئیں تحریریں
بےدست و قلم شخص یوں بولتا ہے
نظر ملا نہیں پاتے سماعتوں والے
مقامِ بغاوت سے جب بےزباں بولتا ہے
ہاتھ جل کے رہ گیا دستانے میں
کبھی کبھی یوں بھی خُوں بولتا ہے
میرے اندازِ تکلم سے نالاں ہیں کچھ پارسا
کیا خبر اُنکو نعیم خود سے کہاں بولتا ہے