آنکھوں میں بس کے خواب دیکھے ہیں
پھر سبھی ٹوٹے خواب دیکھے ہیں
دن میں تھی روشنی بہت لیکن
رات میں جلتے خواب دیکھے ہیں
دل کو بھی چھوڑ کر گیا آخر
جو کبھی سچّے خواب دیکھے ہیں
کچھ نہ ملا سراب تھا ہر سو
دور تک رستے خواب دیکھے ہیں
اب نہ وہ خوشبوئیں، نہ وہ موسم
خواب میں بکھرے خواب دیکھے ہیں
درد نے جب سے جاگنا سیکھا
ہم نے بس روتے خواب دیکھے ہیں
کیسے کریں نعیم ہم شکوہ
خود ہی جو ایسے خواب دیکھے ہیں