مالک مجھے دستِ ہنر دے
کم مایہ ہوں، فتح و ظفر دے
اُٹھا لے دانہ سامنے سے
مجھ کو میرے پَر دے
میں قید ہوں خوابوں میں ترے
تو تعبیر میں اثر دے
یہ دل بھرا ہوا ہے غم سے
اب اِس کو کوئی دَر دے
ہوائے وقت کے ہاتھوں سے
مرے موسم کو پَر دے
ہزار خواہشیں دل میں ہیں
اپنی رضا کا سفر دے
جو دُوریاں ہیں لمحوں کی
انہیں اذنِ مختصر دے
جنہیں اندیشہ ء شام نہ ہو
جذبوں کو ایسی سحر دے
نعیم ہوں بے بسی میں، میں
تو ہمت کا سفر دے