بازار میں سارے اسباب اٹھا لایا ہوں

غزل

بازار میں سارے اسباب اٹھا لایا ہوں
گھر سے ٹوٹے ہوئے خواب اٹھا لایا ہوں

ردّی کے مُول بکیں یا کانچ کے ٹکروں کے
فاقوں کی اماوس میں ماہتاب اٹھا لایا ہوں

بہہ جانے کا اندیشہ ہے تو شکوہ کیسا
کسی کی آنکھوں سے سیلاب اٹھا لایا ہوں

ہر ورق پہ تصویر سی بےیقینی کی
سرھانے سے جو اُسکے کتاب اٹھا لایا ہوں

کچّے گھڑے کی اوٹ میں وہ اتر گیا نعیم
اور میں دریا سے گرداب اٹھا لایا ہوں

نعیم باجوہ

اپنی رائے سے آگاہ کریں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top