میں اُسے محبت کی دہائی دیتا رہا
وہ مجھے زخمِ جدائی دیتا رہا
سہہ نہ پایا میں خوابوں کی اذیت
وہ مجھے نیند پرائی دیتا رہا
سنبھال نہ سکا وہ حافظے کے بیلے میں
میں مسلسل یادیں چرائی دیتا رہا
بجھتے گئے مری ہمت کے چراغ
مقدر اندھیروں کو رسائی دیتا رہا
پھول راہوں کی تمنا میں رہا نعیم
ہجرت کا سفر آبلہ پائی دیتا رہا