گزر جاتے ہیں لوگ دکھ اپنے سنا کر
سوچتا رہتا ہوں طوقِ گراں بار اٹھا کر
حبس اتنی کہ سانس لینا ہے دشوار
ہوا گزر جاتی ہے طنزیہ گدگدا کر
غم آتے ہیں اجنبی مہمان کی صورت
لے جاتے ہیں ساتھ خوشیاں چُھپا کر
مرے اعمال یہ آنسو ہیں فقط یارب
بھیجے ہیں ترے پاس سجدوں میں بہا کر
ترے کُن کا کھلا راز مرے مولا
جب تو نے کہا نعیم دعا کر، دعا کر