رنگ کوئی نہ لگا مری تدبیر کو
حال سناتا رہا میں اک تصویر کو
یادوں کی دیوار میں چھید ہو گئے
سوچتا رہتا ہوں اس کی تعمیر کو
ٹوٹا ہوا دل، بکھرے ہوئے خواب ہیں
نظر لگ نہ جائے میری جاگیر کو
چپ کی دھیمک اسے چاٹ جائے گی
زباں بخش دو گونگی تحریر کو
پتھرائی آنکھیں کہہ رہی ہیں نعیم
پہچان پاؤ گے کیسے تقدیر کو