دعا کو پہناؤ آہ و زاری کا لباس
ملے گا تم کو فضلِ باری کا لباس
نا جانے کب کوئی خوشی عطا ہو گی
کب اترے گا یہ سوگواری کا لباس
دنیاداری کے رنگ ہیں اب تنہائی میں
دکھ کا سفر بھی ہے بے اعتباری کا لباس
ہمیں وفا کا قرض ادا ہی کرنا تھا
پہننا پڑا ہمیں انتظاری کا لباس
نہ جانے کب سے ہم چپ ہیں درد میں
چڑھا ہے لبوں پہ خاموشی کا لباس
نا چاہے عیب پوش ہی اگر نعیم
بے فائدہ ہے پردہ داری کا لباس
دعا کے لبوں پہ آہ و فریاد کا اثر
پہننا پڑا ہمیں عزاء داری کا لباس
جھوٹ کی رہ میں کبھی نہ گزارو کوئی دن
چہرہ چھپانے کا ہے مکاری کا لباس
یقین تھا جو کبھی وعدوں پر، وہ دریا
اب سنبھالنا ہے اپنا خودداری کا لباس