پھر عشق کی باتیں دہرانی ہیں کیا
تجھے انگلیاں پھر کٹوانی ہیں کیا
گھر کے آنگن کو ناپ رہے ہو
کوئی نئی دیوار اٹھانی ہے کیا
گڑے مردے اکھیڑ رہے ہو پھر
نئی لاشیں تمہیں بچھانی ہیں کیا
چہرے پر تازگی کیوں نہیں ہے
تیری آنکھیں بھی بارانی ہیں کیا
دریا کنارے آن بسے ہو نعیم
ماں باپ کی یادیں بہانی ہیں کیا