چلنا لازم ہو تو رستے نہیں دیکھے جاتے
عزم محکم ہو تو آبلے نہیں دیکھے جاتے
مٹے جاتا ہے ہر ایک نقشِ دوئی
ہجر کی راہ میں رابطے نہیں دیکھے جاتے
درد کی سرحدوں کو عبور کر آئے ہیں
اب واپسی کے راستے نہیں دیکھے جاتے
وصل کی آس میں گزری ہیں کتنی صدیاں
ہجر کے ڈھلتے ہوئے سائے نہیں دیکھے جاتے
خواب پلکوں پہ اُترنے سے ڈرنے لگے ہیں
نعیم ارمانوں کے لاشے نہیں دیکھے جاتے