جتنی بھی ہو چاندنی، رات سے ڈر لگتا ہے
اندھیرے کی ملاقات سے ڈر لگتا ہے
خواب میں دیکھے ہیں سائے بہت سے
تعبیر کی اوقات سے ڈر لگتا ہے
میں اڑا لے جاتی ہوں خوشبو کو
ہوا کی اس بات سے ڈر لگتا ہے
چاہت کے شہر میں بے چین ہیں لوگ
اخلاص کے لبادے میں مفادات سے ڈر لگتا ہے
پھر چھن جانے کا اندیشہ ہے دل میں
وصل کی اس سوغات سے ڈر لگتا ہے
تاریک گلیوں میں چلتے ہیں ہم سب
سرگوشی کی ہر بات سے ڈر لگتا ہے
غم چھپائے ہیں ہنسی کے لبادے میں
خود کے ان حالات سے ڈر لگتا ہے
آنسوؤں کی چادر میں چھپے ہیں ارمان
اپنے ہی خیالات سے ڈر لگتا ہے
ریت پر پھسلتے قدموں کو نعیم
سفر کی بہتات سے ڈر لگتا ہے